Karbala Topics In Urdu

کربلا کی امتیازی حیثیت
حق و باطل کے درمیان جنگ اس دنیامیں نئی چیز نہیںیہ جنگ تو اسی وقت سے شروع ہوگئی جب شیطان نے پیکر آدم علیہ السّلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ اب یہ جنگ تا قیامت چلتی رہے گی اور وہ اہل حق سے ہمیشہ نبرد آزما رہے گا لیکن دوسری جانب قادر مطلق خدا نے بھی ابلیس کو یہ بتا دیا تھا کہ میرے جو بندے مخلص اور پرستار حق ہوں گے ان پر تیرا ذرا بھی بس نہ چلے گا خدا وند عالم نے یہ بھی اعلان کردیا تھا حق والے ہرگز باطل کے سامنے تسلیم نہ ہوں گے اور اگر وہ تسلیم ہوگئے تو وہ دنیا بھی باقی نہ رہے گی اس حقیقت کو قرآن مجید نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔
اگر حق لوگوں کی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا تو سارے آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والے تمام لوگ فنا ہوجاتے۔
اس مقام پر جو سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر روز اول سے اس دنیا میں حق و باطل کے درمیان جنگ ہر دور میں رہی ہے تو پھر کربلا ہی کا نام اس سلسلہ میں کیوں لیا جا تا ہے ؟ بقول شاعر، کربلا والوں پہ دنیا کی نظر ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں کربلا میں کون سی ایسی خصوصیت ہے جس کی بنا پر اسے حق وباطل کے درمیان جنگ کا بہترین نمونہ مانا جا تا ہے جبکہ تاریخ عالم اور اسلام نہ جانے کتنی جنگوں کے تذکرے سے پر ہے۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہم حق باطل کے درمیان جنگ جو ہر دور میں ہورہی ہے جب کسی عظیم انسان نے اس دنیا میں پرچم حق بلند کیا اور لوگوں کو اسے سائے میں آنے کی دعوت دی تو شیطان اور لشکر شیطان نے اس کی جی توڑ مخالفت کی ہر نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ہر ولی کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے بھری ہے تو یہ بات ہمیں اپنے ذہن میں رکھنی ہوگی کہ خدائی نمائندے کا ہر عمل مصلحت سے بھرا ہوتا ہے اور بعض اوقات اس میں متعدد مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جن تک عام ذہنوں کی یا تو بالکل رسائی نہیں ہوتی یا پھر گذشت زمان کے ساتھ وہ چیز عام ذہنوں کی گرفت میں آتی ہے اس بات کی زندہ مثال وہ صلح ہے جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مشرکین مکہ کے ساتھ کی اور جسے تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے جاتا جاتا ہے۔
جناب امام حسین علیہ السّلام کا جو بغیر کسی شک و تردید کے حجت خدا تھے کربلا میں ایک خاص انداز میں آنا اور زندگی کے آخری لمحہ تک لوگوں کو راہ حق کی ہدایت دینا اور پھر کلمہ حق کی سربلندی اور فتح کے لیے شہید ہوجانا بھی ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں ہر انسان یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ امام علیہ السّلام کا یہ فعل ہزاروں مصلحتوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے ان میں سے کچھ وجوہات کی طرف تو خود امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بیانات میں ارشاد فرمایا ہے ارو بعض مصلحتیں ایسی ہیں جو مرور زمانہ کے ساتھ ہمارے ذہنوں میں آئی ہیں اور بعض کا انکشاف مستقبل میں ہوتا رہے گا شاید یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزر تا جاتا ہے واقعہ کربلا کے نئے نئے پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور ہمیں اس کی اہمیت کا اور زیادہ احساس ہوتا چلا جاتاہے یہ بھی طے ہے کہ اگر تاریخ کا کوئی واقعہ ابدی حیثیت رکھتا ہو تو اس کے بارے میں کوئی حرف ، حرف آخر نہیں آتا لہذا ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کربلا کی تمام خصوصیات کو بیان کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ محال کام ہے۔
کربلا کی سب سے بڑی خصوصیت اس میں ہر سن و سال کے مجاہد کی موجودگی ہے معمولاً جنگ میں وہ افراد شرکت کرتے ہیں جس جسمانی اعتبار سے قوی اور طاقتور ہوں یہی وجہ ہے کہ کسی سپاہ میں صرف ان لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے جو جوانی میں ہوں لیکن کربلا اس سلسلے میں بالکل ممتاز ہے ہوسکتا ہے کوئی اس مقام پر یہ کہے جناب ختمی مرتبت کے اصحاب میں بھی بہت سے ایسے سن رسیدہ افراد تھے جوجنگوں میں برابر شرکت کرتے رہے تو پھر یہ بات کربلا کے ساتھ کیونکر اختصاص رکھ سکتی ہے ۔
کربلا کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس زمین پاک پر شہید ہونے والا ہر شخص ایمان اور اعتقاد کی اس اس منزل پر پہنچ چکا تھا جہاں تک ہمارا طائر فکر بھی پرواز نہیں کرسکتا وہاں پر سلام کے وہ سپاہی تھے جو سورۃ العف کی آیت نمبر 4مصداق اکمل تھے مذکورہ آیت میں ارشاد ہورہا ہے۔
’’ بے شک خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف آرا ہوکر جہاد کرتے ہیں کہ وہ سیسہ پلائی دیواریں ہوں‘‘
یہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ بھی کہے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لشکر کے افراد بھی راسخ الاعتقاد تھے لہذا یہ بات کربلا کی خصوصیت نہیں کہی جاسکتی جواب میں ہم یہی کہیں گے ہم اس بات کے قائل ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لشکر کے افراد بھی ایمان راسخ رکھتے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی اور کیا سب کے سب ایمان کے بالا ترین منزل پر فائز تھے؟ کربلا کا ہر ایک سپاہی خواہ وہ بچہ ہو یا بوڑھا ارو خواہ جوان ، وہ سراپا ایمان تھا معلوم یہ ہوتا تھا کہ کربلا کے ہر مجاہد کے نام حسین علیہ السّلام ہے شاید یہی وجہ ہے کہ شاعر نے کہا :
میدا ن کربلا میں بہتر حسین علیہ السّلام تھے
حیرت میں تھا زمانہ علی کا پسر ہے کون
یہی وہ با وفا اور بایمان افراد تھے جب شب عاشورہ امام حسین علیہ السّلام کی جانب سے بیعت اٹھا لینے اور جنت کی ضمانت لینے کے باوجود ، شمع امامت کو چھوڑ کر نہ گئے بلکہ یہ کہتے رہے اگر ایسی ہزار جانیں بھی ہمارے پاس ہوتیں تو ہم انہیں بھی اسلام اور حسین علیہ السّلام کے گھر کی وہ عورتیں جو میدان کا رزار میں تو نہ آئیں تھیں لیکن خیموں میں بیٹھ کر مجاہد ین کربلا کی حوصلہ افزائی کررہی تھیں اسن کا ایمان بھی نقطہ کمال کو پہنچ چکا تھا۔ایک اور صفت جو ہمیں کربلا میں ہی نظر آتی ہے جو خواتین کی موجودگی ارو ان کی فعال شرکت ہے اس عظیم واقعہ سے قبل جب بھی حق وباطل روبرو ہوئے خواتین نے یا تو شرکت نہ کی یا پھر ان کی شرکت بہت محدود حد تک رہی لیکن ایسی مائیں جو اپنی ما متا کو قربان کر کے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اسلام پر فدا کر دینے کے لیے باآسانی تیار ہوں۔

کیا اتنی بلند ہمت مائیں کسی اور میدان جنگ میں ملتی ہیں ؟ یہ وہی خواتین تھیں جو کہ گیارہویں محرم کو ان کے بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں کی بے کفن لاشوں کے پاس سے گزارا گیا لیکن انہوں نے اف تک نہ کی ہوسکتا ہے کوئی گمان کر لے کہ یہ خواتین اپنی مرضی سے کربلا میں نہ آئیں تھیں بلکہ ان کو بلایا گیا تھا تو اس بات کے جواب میں ہم تاریخ کا ایک واقعہ پیش کرنا چاہیں گے جناب عبد اللہ کلبی نے جن کا نام شہدائے کربلا میں ملتا ہے کربلا کی جانب اپنے ارادہ سفر سے اپنی زوجہ کوآگاہ کیا تو ان کی زوجہ نے نہ صرف ان کی ہمت بڑھائی بلکہ خود بھی چلنے پر اصرار کرنے لگے چنانچہ عبد اللہ اپنی بیوی کے نصرت امام علیہ السّلام کے لیے پہنچے ایسا اس لیے تھا کہ کربلامیں آنے والی ہر با معرفت خاتون کو یہ معلوم تھا کہ تاریخ کہ اس موڑ پر جس طرح اسلام کو مردوں کے خون کی ضرورت ہے اسی طرح خواتین کی زبان کی ضرورت ہے یہ وہی خواتین تھیں جنہوں نے بعد عاشورہ اس طرح اسلام کی تبلیغ، ترویج اور تشہیر کی کہ جس کا اثر آج تک باقی ہے اور تاقیامت باقی رہے گا مختصر یہ کہ کربلا بہت سے زاویوں سے ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور اسی وجہ سے تاریخ میں اس کا  خاص مقام ہے۔


حضرت امام حسین علیہ السّلام کی حُر سے ملاقات اور سید الشھداء کے دو خطبات:
حضرت امام حسین علیہ السّلام نے حُر سے پوچھا تم اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو؟
حُر نے کہا آپ علیہ السّلام نماز پڑھائیں ہم آپ علیہ السّلام کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
حُر ریاحی اور اما م حسین علیہ السّلام:
حضرت امام حسین علیہ السّلام عقبہ سے چلے یہاں تک کہ منزل شراف میں جا اترے۔ پس جب صبح ہوئی تو اپنے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ پانی بھر لینے کا حکم دے ۔ پھر دوپہر تک وہاں سے چلے وہ چل ہی رہے تھے کہ آپ علیہ السّلام کے اصحاب میں سے ایک شخص نے تکبیر کی آواز بلند کی اس امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا اللہ بزرگ ہی ہے لیکن تو نے تکبیر کیوں کہی ؟ وہ کہنے لگا مجھے کھجور کے درخت نظر آتے ہیں۔ آپ کے دوسرے اصحاب کہنے لگے کہ ہم نے یہاں کبھی کھجور کے درخت نہیں دیکھے اس پر اما م حسین علیہ السّلام نے ان سے فرمایا تو تمہیں کیا نظر آتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا : خدا کی قسم ! ہم گھوڑوں کے کان دیکھ رہے ہیں آپ علیہ السّلام نے فرمایا: بخدا میں بھی یہی دیکھ رہا ہوں ۔ پھر آپ علیہ السّلام نے دریافت کیا کہ کیا ہمارے لئے پناہ لینے کی کوئی جگہ ہے ؟ جسے ہم اپنی پشت کی جانب قراردیں اور اس قوم کا سامنا صرف ایک جانب سے کریں۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ علیہ السّلام کے پہلو میں یہ ذوحسم نامی پہاڑ ہے۔ آپ علیہ السّلام بائیں طرف سے اس کی طرف مڑجائیں اور اگر آپ علیہ السّلام ان سے پہلے اس تک پہنچ گئے تو آپ علیہ السّلام کی مراد حاصل ہوجائے گی ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہمیں گھوڑوں کی گردنیں نظر آنے لگیں۔ جب ہم راستہ چھوڑ کر مڑے تو وہ بھی ہمارے طرف مڑ گئے( ایسا معلوم تھا)گویا ان کے نیزے کھجوروں کے تنے اور ان کے علم پرندوں کے پر تھے۔ پس ہم ان سے پہلے ذوحسم پہاڑ کے پاس پہنچ گئے اور امام حسین علیہ السّلام کے حکم کے مطابق خیمے نصب کئے گئے اور وہ گروہ جو تقریباًایک ہزار افراد پر مشتمل تھا حر بن یزید تمیمی کے ساتھ آیا وہ اور ان کے گھوڑے دوپہر کی گرمی میں امام حسین علیہ السّلام کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ امام حسین علیہ السّلام اور آپ علیہ السّلام کے ا صحاب نے عمامے پہن رکھے تھے اور تلواریں گلے میں لٹکا ئے ہوئے تھے ۔ حضرت امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا کہ ان لوگوں کو پانی پلاؤ اور سیراب کرو اور ان کے گھوڑوں کو بھی تھوڑا تھوڑا کے لے پانی پلاؤ تاکہ وہ سیرہو جائیں ۔ امام حسین علیہ السّلام کے جوان آگے بڑھے وہ بڑے بڑے پیالے اور طشت پانی سے بھرتے اور پھر انہیں گھوڑوں کے قریب لے جاتے،جب ایک گھوڑا تین، چار یا پانچ مرتبہ پانی پہ لیتا تو دوسرے گھوڑے کو پانی پلاتے یہاں تک کہ سب گھوڑوں کو پانی پلایا۔ علی بن طعان محاربی کہتا ہے کہ میں اس دن حُر کے ساتھ تھا اور اس کے ساتھیوں میں سے سب سے آخر میں پہنچا تھا۔ پس امام حسین علیہ السّلام نے مجھے اور میرے گھوڑے کو پیا سا دیکھا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: راویہ کو بٹھاؤ اور میرے نزدیک راویہ کا معنی مشک تھا اور پھر فرمایا: اے بھتیجے اونٹ کو بٹھاؤ۔ پس میں اسے بٹھا یا۔ پھر فرمایا: پانی پی لو۔ پس جب میں پانی پینے لگا تو پانی مشک سے گرنے لگا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: مشک کو ٹیڑھا کرو۔ لیکن میں نہ سمجھ سکا کہ کیا کروں؟ پس آپ علیہ السّلام نے اٹھ کو مشک کو ٹیڑھا کیا اور میں نے خود بھی پانی پیا اور اپنے گھوڑے کو بھی پلایا۔
حُر بن یزید قادسیہ کی طرف سے آیا تھااور چونکہ عبید اللہ بن زیاد نے حصین بن نمیر کو بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ وہ قادسیہ میں پڑاؤ کرے اور اس نے حُر کو ایک ہزار سوار کے ساتھ آگے بھیجا تھا کہ وہ ان کے ساتھ امام حسین علیہ السّلام کا سامنا کرے پس حُر امام حسین کے مقابل کھڑا رہا۔ جب نماز ظہر کا وقت آیا تو امام حسین علیہ السّلام نے حجاج بن مسروق سے اذان کہنے کو کہا۔ جب نماز کی اقامت کا وقت آیا تو امام حسین علیہ السّلام تہ بند باندھے، ردا اوڑھے اور جوتا پہنے ہوئے باہر آئے آپ علیہ السّلام نے اللہ کی حمد و ثنا ء کی پھر فرمایا: ’’ اے لوگوً میں تمہارے پاس اس وقت تک نہیں آیا جب تک تمہارے خطوط اور قاصد میرے پاس یہ پیغام لے کر نہیں پہنچے کہ’’ آپ علیہ السّلام ہمارے پاس آئیں، بے شک ہمار ا کوئی امام و پیشوا نہیں ، شاید آپ علیہ السّلام کی وجہ سے خدد ہمیں ہدایت اور حق پر جمع کردے ‘‘
اگر تم اس وعدے پر قائم ہو تو میں آگیا ہوں ، اپنے عہد و میثاق کو اس طرح پورا کرو کہ میں مطمئن ہوجاؤں اور اگر تم یہ نہیں کرتے اور تمہیں میرا آنا نا پسند ہے تو میں اسی جگہ سے واپس چلا جاتا ہوں جہاں سے تمہارے پاس آیا ہوں‘‘۔
یہ خطاب سن کر وہ سب خاموش رہے اور ان میں سے کسی ایک نے بھی کلمہ تک نہ کہا ۔ آپ علیہ السّلام نے موذن سے کہا کہ اقامت کہو۔ جب آپ علیہ السّلام نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ علیہ السّلامنے حُر سے کہا : تم اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں بلکہ آپ علیہ السّلام نماز پڑھائیں ، ہم آپ علیہ السّلام کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ لہذا حضرت امام حسین علیہ السّلام نے نماز پڑھائی اور پھر آپ علیہ السّلام خیمہ میں واپس چلے گئے اور آپ علیہ السّلام کے اصحاب آپ علیہ السّلام کے پاس جمع ہوگئے، حر بھی اپنی جگہ کی طرف چلا گیا جہاں وہ ٹھہرا تھا اور اس خیمہ میں داخل ہوا جو اس کے لیے نصب کیا گیا تھا۔ اس کے پاس بھی اس کے ساتھیوں کی ایک جماعت جمع ہوئی اور باقی لوگو اپنی ان صفوں کی طرف مڑگئے جن میں وہ تھے اور دوبارہ انہوں نے صف بندی کر لی۔ پھر ہر شخص اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اس کے سائے میں بیٹھ گیا۔ عصر کے وقت حضرت امام حسین علیہ السّلام نے کوچ کے لیے تیاری کا حکم دیا۔پھر آپ علیہ السّلام نے اپنے منادی کو کہا کہ جس نے نماز عصر کے لیے پکارا اور اقامت کہی اور امام حسین علیہ السّلا م آگے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی ۔ پھر آپ علیہ السّلام نے سلام پڑھ کر رخ اقدس ان کی جانب کیا اور فرمایا:’’ اللہ سے ڈرو اور حق دار کا حق پہچانو یہ چیز اللہ کو تم سے زیادہ قریب کردے گی۔ ہم اہلبیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور تم پر ولایت امر کے ان لوگوں سے زیادہ حق دار ہیں جو اس کے دعویدار بن گئے ہیں ، جن کی یہ چیز نہیں ، جو تم ظلم و جور اور حق سے تجاوز کرکے چل رہے ہیں اور اگر تم انکار کرتے ہو مگر ہمار ی ناپسنددیدگی کا ہمارے حق سے جاہل ہونے کا تو اس وقت تمہاری رائے اس کے خلاف ہے جس پر تمہارے خطوط اور تمہارے نمائندے میرے پاس پہنچے ہیں تو میں تمہارے یہاں سے واپس چلا جاتا ہوں۔‘‘