Saturday, 22 October 2011
Friday, 30 September 2011
History Kaaba In Urdu
تاریخ کعبہ
پہلا غلاف جو کعبے پر چڑیا وہ جناب عدنان علیہ السّلام کا کارنامہ تھا ۔ ایک سنت کے بطور پر اب ہر سال حج کے موقع پر غلاف کو بدلا جاتا ہے۔ غلاف کعبہ کو نہ رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ہٹایا نہ کسی امام علیہ السّلام نے ۔ اگر یہ کوئی بدعت ہوتی ، اگر یہ سنتِ الہیٰ کے خلاف کوئی بات ہوتی تو رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے جس طرح زمانہ جاہلیت کی رسموں کو ترک کردیا تھا، مٹا دیا تھا۔ اس کوبھی مٹا دیتے مگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا اس کو باقی رکھو۔
یہ میرے جدِّ عدنان علیہ السّلام کی سنت ہے اور یہی سنتِ الہیٰ ہے یعنی مرضی پروردگار یہی ہے منشائے الٰہی یہی ہے کہ اس پر غلاف چڑھا رہے۔
کچھ تذکرہ جناب معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام کا بھی ہوجائے، بخت نصر کا دور ہے۔ بخت نصر کون ہے؟جس کو یہودیوں پر مسلط کیا تھا پروردگار نے ۔ وہ جو اشارہ ہے سورۃ فتح میں ۔ الم ترکیف فعل ربک بعاد۔ ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد..........یہاں عاد، ثمود اور فرعون کا ذکر اور ایک اور جگہ عذاب کا ذکر کہ کس طرح ہم نے اصحاب اخدود کا جہاں پر ذکر آیا ہے کہ ان لوگوں نے کیا کیا تھا؟ نصرانیوں کو جس وقت نئے توحید پرست تھے۔ نیا دین عیسائی تھا بہرحال یہودیت کے جو جدید دین آیا تھا۔ وہ عیسائیت تھا۔ اگرچہ تحریف ہوگئی تھی لیکن اسلام تو نہیں آیا تھا، عیسائیت تھی۔ عیسائیوں کو خندق میں ڈال کر جلا دیا تھا۔ یہودیوں نے خندقیں کھود رکھیں تھیں اس میں ڈال کر جلادیتے تھے۔ تو یہ ظلم جب حد سے گزر گیا تو پروردگار نے ان پر بخت نصر جیسے بادشاہ کو مسلط کردیا جس نے دنیا تہلکہ مچا دیا۔
قتل و غارت گری کرنے والے بادشاہوں پر قہر بن کر نازل ہوتا تھا بخت نصر۔ کاف تھا قتل و غارت کرتا ہوا مکہ بھی پہنچا کیونکہ اس کو تو پوری دنیا پہ فرماں روائی کا سوق تھا کہ دنیا کی ساری زمین پہ میرا قبضہ ہو۔ تو جناب عدنان علیہ السّلام جو دلیر و شجاع تھے انہوں نے پورے لشکر کا مقابلہ کیا حالانکہ مکہ کتنا سا تھا مگر جناب عدنان علیہ السّلام آخر دم تک لڑتے رہے یہاں تک کہ بخت نصر کے ساتھی چھوڑ کر فرار ہوگئے، بھاگ گئے اور جناب عدنان علیہ السّلام کوبھی شام جانا پڑا یعنی مکہ چھوڑ دیا۔
بخت نصر مرگیا اور جناب عدنان علیہ السّلام کا یمن میں انتقال ہوا ۔ ان کے بیٹے جناب معد علیہ السّلام کو پھر مکہ والے لے کے آئے کہ سرداری کا حق تمہی کو ہے۔
معد علیہ السّلام عدنان علیہ السّلام مکے آئے اور انہوں نے پہلی بار حدود حرم کو معین کیا۔ کل میں نے اشارہ بھی کیا تھا۔ پورے حرم کی حدود کے پتھر لگائے گئے اب وہ پتھر تو نہیں رہے مگر جناب معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام کی معین کردہ حدود میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ اب دوسرے پتھر جو لگائے گئے ہیں وہ اپنی پرانی جگہوں پر لگائے ہیں جو جناب معد علیہ السّلام کی معین کی ہوئی تھیں۔ جناب معد علیہ السّلام نے یہ سارا منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات گھوم کے حرم کی حدود معین کیں کہ یہ حرم ہے ۔ اگر جناب معد علیہ السّلام وصی نہ ہوتے، معد علیہ السّلام زمین پر حجت خدا نہ ہوتے تو انہین کیسے معلوم ہوتا کہ حرم کی حدود یہ ہیں حرم کی حدود صحیح اس لیے قرار پائیں کہ رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اعلان کیا کہ جو میرے جدِّ معد علیہ السّلام ابنِ عدنان علیہ السّلام نے حرم کی جو حدود معین کی ہیں وہی حقیقی حدود حرم ہیں تو بس اس کا مطلب یہ ہے کہ معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام وصی ہیں ۔ اپنے دور میں زمین پر حجت الٰہی ہیں ۔ جانشین ہیں جناب ابراہیم علیہ السّلام کے بھی، جناب اسماعیل علیہ السّلام کے بھی لیکن ماحول اتنا بدل چکا تھا کہ اعلان نہیں کرسکتے ۔ بتا نہیں سکتے مگر اپنے منصب و سرداری کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ نشانات لگائے جناب معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام نے ۔ یہ ان کی سنت ہوئی۔
جناب معد علیہ السّلام کے بیٹے نزار علیہ السّلام یعنی جناب عدنان علیہ السّلام کے پوتے نزاد علیہ السّلام وہ پہلے شخص ہیں حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے آباؤ اجداد علیہ السّلام میں جنہوں نے عربی رسم الخط ایجاد کیا کہ ضرورت پڑے گی تمہیں۔ اور آپ یہ دیکھئے۔ کہ اسی رسم الخط میں قرآن نازل ہوا۔ اسی زبان میں ، اسی لینگوئج میں ، اس رسم الخط میں جو نزار علیہ السّلام ابن معد علیہ السّلام نے ایجاد کیا اسی میں قرآن نازل ہوا یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ نزار علیہ السّلام بھی وصی رسول ہیں۔ یہ بھی جناب ابراہیم علیہ السّلام اور جناب اسماعیل علیہ السّلام کے وارث ہیں۔ ان کی نسلیں پھیلتی جارہی ہیں لیکن وہ انوارِ مقدسہ تو ایک صلب سے دوسرے صلب میں آتے جا رہے ہیں جس پشت میں انوار مقد سہ منتقل ہوتے ہیں وہی وارث قرار پاتا ہے وہ وصی قرار پاتا ہے اور انہی نزار علیہ السّلام کے بیٹے جناب الیاس علیہ السّلام ہوئے ۔ جناب رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے اجداد میں سے جناب الیاس علیہ السّلام وہ فرد ہوئے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے سامنے جب کسی نے جناب الیا س علیہ السّلام کو بُرا بھلا کہا تو فوراً رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا : خبردار میرے جدِّ الیاس کو بُرا نہ کہنا سب و شتم نہ کرنا اس لیے کہ وہ مومن کامل تھے ۔ سیرے حلبیہ کی پہلی جلد میں بھی یہ حدیث مبارکہ موجود ہے رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ، ہمارے یہاں تو ہے ہی ، لیکن میں نے برادران اہل سنت کی حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ دونوں جگہ یہ چیز موجود ہے ۔ سیرت حلبیہ نے اس حدیث کو نقل کردیا ہے ۔ اب تازہ آنے والی کتابوں کو تذکرہ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ کیونکہ نئے ایڈیشنز کے ناشرین ایسی ساری چیزوں کو نکالتے چلے جارہے ہیں لیکن بہر حال پرانے کتاب کانوں میں یہ کتاب سیرت حلبیہ موجود ہے جس میں یہ حدیث ہے کہ جیسے ہی رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے سنا آپ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم غضب ناک ہوئے۔ جناب الیاس علیہ السّلام کے لیے کہا کہ وہ کامل مومن تھے۔ خبردار! ان کو بُرا بھلا مت کہنا۔ جناب الیاس علیہ السّلام ، جناب رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے وہ جدِّ ہیں کہ جن کے بارے میں نص صریح موجود ہے۔
جناب الیاس علیہ السّلام ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے دوبارہ سنتِ ابراہیمی کا قائم کیا یعنی وہ جو تحریفات ہونا شروع ہوئیں تھیں شروع میں تو تعاون و مزاخمت ہوتی ہے نا؟ حالات تو بعد میں خراب ہوئے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے چند اجداد تک یا جناب اسماعیل علیہ السّلام کی چند پشتوں تک ہر فرد نے کوشش کی کہ تحریفات کو روکے، ان کے سامنے بند باندھے۔
تو جناب الیاس علیہ السّلام وہ فرد ہیں جو تحریفات کے مقابلے کھڑے ہوئے کہ کیا کرتے ہو ؟ یہ نہیں ہے دین ابراہیمی ، یہ نہیں ہے شریعت ابراہیمی جو تم کر رہے ہو۔ سب پر پابندی لگائی اور پھر سے جناب ابراہیم علیہ السّلام کی سنت کو زندہ کیا ۔ احیا کیا کہ حج ایسے ہوگا ۔ عبادت ایسے ہوگی۔ عرفات یہ ہے، مزدلفہ یہ ہے ۔ منیٰ یہ ہے ، زم زم یہ ہے ۔ طواف کے چکر یہ ہیں حالانکہ بعد میں ختم ہوگئے یہ تو جناب عبد المطلب کا کارنامہ ہے آپ کو بتا چکا ہوں کہ انہوں نے یہ ساتھ چکر معین کیے تھے۔ اب جب بعد میں جناب عبد المطلب علیہ السّلام کا ذکر آئے گا تو تفصیلات بیان کریں گے۔ تو جناب الیاس علیہ السّلام نے ایک بار پھر سنت ابراہیمی کا احیا کیا اور سختی کے ساتھ لوگوں کو اس کا پابند کیا کہ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں بلکہ جو خدا چاہتا ہے وہ ہوگا۔ جو جناب ابراہیم علیہ السّلام کی شریعت ہے وہ چلے گی۔
تمہاری مرضی کا دین نہیں چاہیے۔ اپنی مرضیوں کو دین نہ بناؤ۔ اپنی مرضیوں کو شریعت نہ بناؤ۔ اپنی مرضیوں یا خواہشات کو دین کا لبادہ نہا اوڑھاؤ۔ دین کی نقاب ڈال کر سامنے نہ آؤ۔ کیونکہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کا آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس چیز سے ان کے جذبات وابستہ ہیں اس میں غیر محسوس تحریفات کے ذریعے نفوذ کرو اور آہستگی سے سب کچھ بدل کے رکھ دو ۔ اس چیز کو سامنے رکھو اور پیچھے اپنا کام کرتے چلے جاؤ۔
تو یہ کون لوگ ہیں؟ ’’یخادعون اللہ و ما یخدعون الاّ انفسھم‘‘ قرآن مجید کہتا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں یہ اللہ کو دھوکہ نہیں دے رہے بلکہ یہ وہ احمق لوگ ہیں جو اپنے نفسوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں جبکہ یہ اپنے آپ کو بڑا عقل مند سمجھتے ہیں کہ کیسا ہم دھوکہ دے رہے ہیں لوگوں کو۔ یہ کسی کو دھوکہ نہیں دے رہے وما یخدعون الاّ انفسھم سوائے اس کے کہ اپنے نفسوں کو دھوکہ دے رہے ہیں قیامت کے دن ان پروائے ہوگی توانہیں احساس ہوگا کہ ہم اکیلے منکر نہیں ہوئے، ہم خود فریب کار نہیں تھیبلکہ ہم نے اپنی فریب کاریوں اور مکاریوں کے چنگل میں پھنسا کر کتنے ہی سادہ لوح لوگوں کو تحریف کے راستوں پر ڈال دیا۔ کتنے لوگوں کے عقائد مسخ کردئیے۔ کتنے لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹا کر دوسرے رستوں پر ڈال دیا۔
تو یہ ہیں جناب الیاس علیہ السّلام او ر ان کے بیٹے ہوئے جناب مضر علیہ السّلام۔ جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام چوتھے فرد، کعبہ مخدوش ہوچکا ہے ، بوسیدہ ہوچکا ہے ۔ جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام ہیں جنہوں نے پھر سے کعبے کو تعمیر کیا یہ چوتھی مرتبہ کعبے کی تعمیر ہوئی ہے یعنی آدم علیہ السّلام کے بعد سے ، ویسے تو پانچویں مرتبہ کیونکہ ملائکہ نے کعبے کی بنیاد رکھی ہے۔
آدم علیہ السّلام شیث علیہ السّلام، ابراہیم علیہ السّلام ، اسماعیل علیہ السّلام اور چوتھے جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام پھر نئے سرے سے حکم ہوا ۔ پھر کعبے کی تعمیر کیجئے اور جناب مضر علیہ السّلام ہی وہ فرد ہیں جن سے عربی لحن کا آغاز ہوا۔ پہلے فرد جنہیں پروردگار نے اتنا خوش الحان بنایا تھا ، تنا خوش گلو بنایا تھا کہ اگر یہ صحراؤ بیا بان میں بیٹھ کر آواز دیتے تھے اونٹوں کو تو اونٹوں کے ساتھ دوسرے حیوان بھی ان کے گرد جمع ہوجا یا کرتے تھے۔ آج اونٹوں کو پکارنے، بلانے کے لیے جو مخصوص آوازیں رائج ہیں تو ہی ہیں جو آج اونٹوں کو پکارنے ، بلانے کے لیے جو مخصوص آوازیں رائج ہیں تو ہی ہیں جو آج سے دو یا ڈھائی ہزار سال پہلے جب مضر ابن الیاس علیہ السّلام کا وجود تھا جناب مضر علیہ ابن الیاس علیہ السّلام ایسی ہی آواز سے اونٹوں کو متوجہ کیا کرتے تھے۔ جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام اپنے مخصوص لحن میں جناب ابراہیم علیہ السّلام کے صحیفوں کی تلاوت بھی کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کے ذہن میں فراموش شدہ پیغام الٰہی تازہ ہوتا رہے جناب مضر علیہ السّلام کے ذریعے چوتھی بار کعبہ تعمیر ہوا اور دنیا کے سامنے پھر نئی شکل میں آیا۔ دیکھئے ! جناب اسماعیل علیہ السّلام کا وہ وصی کوشش یہ کر رہا ہے کہ کسی طرح سے دین ابراہیمی، شریعت ابراہیمی اپنے اصلی خدوخال اور لوازمات کے ساتھ باقی رہے، لیکن دوسری طرف انحرافی قوتیں بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں دوسری قوتیں بھی تو کام کرتی ہیں اور دوسری قوتیں جب مکرو فریب کا جال بچھا کر کام کرتی ہیں تو لوگوں کو ان کے کام میں کشش بھی نظر آتی ہے ، سہولت بھی نظر آتی ہے اور جنت تک پہنچنے کا آسان راستہ بھی نظر آتا ہے تو ظاہر ہے فطرت انسانی کہاں جائے گی؟ کم خرچ زیادہ منافع ، کم زحمت زیادہ فائدہ.
پہلا غلاف جو کعبے پر چڑیا وہ جناب عدنان علیہ السّلام کا کارنامہ تھا ۔ ایک سنت کے بطور پر اب ہر سال حج کے موقع پر غلاف کو بدلا جاتا ہے۔ غلاف کعبہ کو نہ رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ہٹایا نہ کسی امام علیہ السّلام نے ۔ اگر یہ کوئی بدعت ہوتی ، اگر یہ سنتِ الہیٰ کے خلاف کوئی بات ہوتی تو رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے جس طرح زمانہ جاہلیت کی رسموں کو ترک کردیا تھا، مٹا دیا تھا۔ اس کوبھی مٹا دیتے مگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا اس کو باقی رکھو۔
یہ میرے جدِّ عدنان علیہ السّلام کی سنت ہے اور یہی سنتِ الہیٰ ہے یعنی مرضی پروردگار یہی ہے منشائے الٰہی یہی ہے کہ اس پر غلاف چڑھا رہے۔
کچھ تذکرہ جناب معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام کا بھی ہوجائے، بخت نصر کا دور ہے۔ بخت نصر کون ہے؟جس کو یہودیوں پر مسلط کیا تھا پروردگار نے ۔ وہ جو اشارہ ہے سورۃ فتح میں ۔ الم ترکیف فعل ربک بعاد۔ ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد..........یہاں عاد، ثمود اور فرعون کا ذکر اور ایک اور جگہ عذاب کا ذکر کہ کس طرح ہم نے اصحاب اخدود کا جہاں پر ذکر آیا ہے کہ ان لوگوں نے کیا کیا تھا؟ نصرانیوں کو جس وقت نئے توحید پرست تھے۔ نیا دین عیسائی تھا بہرحال یہودیت کے جو جدید دین آیا تھا۔ وہ عیسائیت تھا۔ اگرچہ تحریف ہوگئی تھی لیکن اسلام تو نہیں آیا تھا، عیسائیت تھی۔ عیسائیوں کو خندق میں ڈال کر جلا دیا تھا۔ یہودیوں نے خندقیں کھود رکھیں تھیں اس میں ڈال کر جلادیتے تھے۔ تو یہ ظلم جب حد سے گزر گیا تو پروردگار نے ان پر بخت نصر جیسے بادشاہ کو مسلط کردیا جس نے دنیا تہلکہ مچا دیا۔
قتل و غارت گری کرنے والے بادشاہوں پر قہر بن کر نازل ہوتا تھا بخت نصر۔ کاف تھا قتل و غارت کرتا ہوا مکہ بھی پہنچا کیونکہ اس کو تو پوری دنیا پہ فرماں روائی کا سوق تھا کہ دنیا کی ساری زمین پہ میرا قبضہ ہو۔ تو جناب عدنان علیہ السّلام جو دلیر و شجاع تھے انہوں نے پورے لشکر کا مقابلہ کیا حالانکہ مکہ کتنا سا تھا مگر جناب عدنان علیہ السّلام آخر دم تک لڑتے رہے یہاں تک کہ بخت نصر کے ساتھی چھوڑ کر فرار ہوگئے، بھاگ گئے اور جناب عدنان علیہ السّلام کوبھی شام جانا پڑا یعنی مکہ چھوڑ دیا۔
بخت نصر مرگیا اور جناب عدنان علیہ السّلام کا یمن میں انتقال ہوا ۔ ان کے بیٹے جناب معد علیہ السّلام کو پھر مکہ والے لے کے آئے کہ سرداری کا حق تمہی کو ہے۔
معد علیہ السّلام عدنان علیہ السّلام مکے آئے اور انہوں نے پہلی بار حدود حرم کو معین کیا۔ کل میں نے اشارہ بھی کیا تھا۔ پورے حرم کی حدود کے پتھر لگائے گئے اب وہ پتھر تو نہیں رہے مگر جناب معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام کی معین کردہ حدود میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ اب دوسرے پتھر جو لگائے گئے ہیں وہ اپنی پرانی جگہوں پر لگائے ہیں جو جناب معد علیہ السّلام کی معین کی ہوئی تھیں۔ جناب معد علیہ السّلام نے یہ سارا منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات گھوم کے حرم کی حدود معین کیں کہ یہ حرم ہے ۔ اگر جناب معد علیہ السّلام وصی نہ ہوتے، معد علیہ السّلام زمین پر حجت خدا نہ ہوتے تو انہین کیسے معلوم ہوتا کہ حرم کی حدود یہ ہیں حرم کی حدود صحیح اس لیے قرار پائیں کہ رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اعلان کیا کہ جو میرے جدِّ معد علیہ السّلام ابنِ عدنان علیہ السّلام نے حرم کی جو حدود معین کی ہیں وہی حقیقی حدود حرم ہیں تو بس اس کا مطلب یہ ہے کہ معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام وصی ہیں ۔ اپنے دور میں زمین پر حجت الٰہی ہیں ۔ جانشین ہیں جناب ابراہیم علیہ السّلام کے بھی، جناب اسماعیل علیہ السّلام کے بھی لیکن ماحول اتنا بدل چکا تھا کہ اعلان نہیں کرسکتے ۔ بتا نہیں سکتے مگر اپنے منصب و سرداری کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ نشانات لگائے جناب معد علیہ السّلام ابن عدنان علیہ السّلام نے ۔ یہ ان کی سنت ہوئی۔
جناب معد علیہ السّلام کے بیٹے نزار علیہ السّلام یعنی جناب عدنان علیہ السّلام کے پوتے نزاد علیہ السّلام وہ پہلے شخص ہیں حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے آباؤ اجداد علیہ السّلام میں جنہوں نے عربی رسم الخط ایجاد کیا کہ ضرورت پڑے گی تمہیں۔ اور آپ یہ دیکھئے۔ کہ اسی رسم الخط میں قرآن نازل ہوا۔ اسی زبان میں ، اسی لینگوئج میں ، اس رسم الخط میں جو نزار علیہ السّلام ابن معد علیہ السّلام نے ایجاد کیا اسی میں قرآن نازل ہوا یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ نزار علیہ السّلام بھی وصی رسول ہیں۔ یہ بھی جناب ابراہیم علیہ السّلام اور جناب اسماعیل علیہ السّلام کے وارث ہیں۔ ان کی نسلیں پھیلتی جارہی ہیں لیکن وہ انوارِ مقدسہ تو ایک صلب سے دوسرے صلب میں آتے جا رہے ہیں جس پشت میں انوار مقد سہ منتقل ہوتے ہیں وہی وارث قرار پاتا ہے وہ وصی قرار پاتا ہے اور انہی نزار علیہ السّلام کے بیٹے جناب الیاس علیہ السّلام ہوئے ۔ جناب رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے اجداد میں سے جناب الیاس علیہ السّلام وہ فرد ہوئے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے سامنے جب کسی نے جناب الیا س علیہ السّلام کو بُرا بھلا کہا تو فوراً رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا : خبردار میرے جدِّ الیاس کو بُرا نہ کہنا سب و شتم نہ کرنا اس لیے کہ وہ مومن کامل تھے ۔ سیرے حلبیہ کی پہلی جلد میں بھی یہ حدیث مبارکہ موجود ہے رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ، ہمارے یہاں تو ہے ہی ، لیکن میں نے برادران اہل سنت کی حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ دونوں جگہ یہ چیز موجود ہے ۔ سیرت حلبیہ نے اس حدیث کو نقل کردیا ہے ۔ اب تازہ آنے والی کتابوں کو تذکرہ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ کیونکہ نئے ایڈیشنز کے ناشرین ایسی ساری چیزوں کو نکالتے چلے جارہے ہیں لیکن بہر حال پرانے کتاب کانوں میں یہ کتاب سیرت حلبیہ موجود ہے جس میں یہ حدیث ہے کہ جیسے ہی رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے سنا آپ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم غضب ناک ہوئے۔ جناب الیاس علیہ السّلام کے لیے کہا کہ وہ کامل مومن تھے۔ خبردار! ان کو بُرا بھلا مت کہنا۔ جناب الیاس علیہ السّلام ، جناب رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے وہ جدِّ ہیں کہ جن کے بارے میں نص صریح موجود ہے۔
جناب الیاس علیہ السّلام ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے دوبارہ سنتِ ابراہیمی کا قائم کیا یعنی وہ جو تحریفات ہونا شروع ہوئیں تھیں شروع میں تو تعاون و مزاخمت ہوتی ہے نا؟ حالات تو بعد میں خراب ہوئے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے چند اجداد تک یا جناب اسماعیل علیہ السّلام کی چند پشتوں تک ہر فرد نے کوشش کی کہ تحریفات کو روکے، ان کے سامنے بند باندھے۔
تو جناب الیاس علیہ السّلام وہ فرد ہیں جو تحریفات کے مقابلے کھڑے ہوئے کہ کیا کرتے ہو ؟ یہ نہیں ہے دین ابراہیمی ، یہ نہیں ہے شریعت ابراہیمی جو تم کر رہے ہو۔ سب پر پابندی لگائی اور پھر سے جناب ابراہیم علیہ السّلام کی سنت کو زندہ کیا ۔ احیا کیا کہ حج ایسے ہوگا ۔ عبادت ایسے ہوگی۔ عرفات یہ ہے، مزدلفہ یہ ہے ۔ منیٰ یہ ہے ، زم زم یہ ہے ۔ طواف کے چکر یہ ہیں حالانکہ بعد میں ختم ہوگئے یہ تو جناب عبد المطلب کا کارنامہ ہے آپ کو بتا چکا ہوں کہ انہوں نے یہ ساتھ چکر معین کیے تھے۔ اب جب بعد میں جناب عبد المطلب علیہ السّلام کا ذکر آئے گا تو تفصیلات بیان کریں گے۔ تو جناب الیاس علیہ السّلام نے ایک بار پھر سنت ابراہیمی کا احیا کیا اور سختی کے ساتھ لوگوں کو اس کا پابند کیا کہ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں بلکہ جو خدا چاہتا ہے وہ ہوگا۔ جو جناب ابراہیم علیہ السّلام کی شریعت ہے وہ چلے گی۔
تمہاری مرضی کا دین نہیں چاہیے۔ اپنی مرضیوں کو دین نہ بناؤ۔ اپنی مرضیوں کو شریعت نہ بناؤ۔ اپنی مرضیوں یا خواہشات کو دین کا لبادہ نہا اوڑھاؤ۔ دین کی نقاب ڈال کر سامنے نہ آؤ۔ کیونکہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کا آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس چیز سے ان کے جذبات وابستہ ہیں اس میں غیر محسوس تحریفات کے ذریعے نفوذ کرو اور آہستگی سے سب کچھ بدل کے رکھ دو ۔ اس چیز کو سامنے رکھو اور پیچھے اپنا کام کرتے چلے جاؤ۔
تو یہ کون لوگ ہیں؟ ’’یخادعون اللہ و ما یخدعون الاّ انفسھم‘‘ قرآن مجید کہتا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں یہ اللہ کو دھوکہ نہیں دے رہے بلکہ یہ وہ احمق لوگ ہیں جو اپنے نفسوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں جبکہ یہ اپنے آپ کو بڑا عقل مند سمجھتے ہیں کہ کیسا ہم دھوکہ دے رہے ہیں لوگوں کو۔ یہ کسی کو دھوکہ نہیں دے رہے وما یخدعون الاّ انفسھم سوائے اس کے کہ اپنے نفسوں کو دھوکہ دے رہے ہیں قیامت کے دن ان پروائے ہوگی توانہیں احساس ہوگا کہ ہم اکیلے منکر نہیں ہوئے، ہم خود فریب کار نہیں تھیبلکہ ہم نے اپنی فریب کاریوں اور مکاریوں کے چنگل میں پھنسا کر کتنے ہی سادہ لوح لوگوں کو تحریف کے راستوں پر ڈال دیا۔ کتنے لوگوں کے عقائد مسخ کردئیے۔ کتنے لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹا کر دوسرے رستوں پر ڈال دیا۔
تو یہ ہیں جناب الیاس علیہ السّلام او ر ان کے بیٹے ہوئے جناب مضر علیہ السّلام۔ جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام چوتھے فرد، کعبہ مخدوش ہوچکا ہے ، بوسیدہ ہوچکا ہے ۔ جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام ہیں جنہوں نے پھر سے کعبے کو تعمیر کیا یہ چوتھی مرتبہ کعبے کی تعمیر ہوئی ہے یعنی آدم علیہ السّلام کے بعد سے ، ویسے تو پانچویں مرتبہ کیونکہ ملائکہ نے کعبے کی بنیاد رکھی ہے۔
آدم علیہ السّلام شیث علیہ السّلام، ابراہیم علیہ السّلام ، اسماعیل علیہ السّلام اور چوتھے جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام پھر نئے سرے سے حکم ہوا ۔ پھر کعبے کی تعمیر کیجئے اور جناب مضر علیہ السّلام ہی وہ فرد ہیں جن سے عربی لحن کا آغاز ہوا۔ پہلے فرد جنہیں پروردگار نے اتنا خوش الحان بنایا تھا ، تنا خوش گلو بنایا تھا کہ اگر یہ صحراؤ بیا بان میں بیٹھ کر آواز دیتے تھے اونٹوں کو تو اونٹوں کے ساتھ دوسرے حیوان بھی ان کے گرد جمع ہوجا یا کرتے تھے۔ آج اونٹوں کو پکارنے، بلانے کے لیے جو مخصوص آوازیں رائج ہیں تو ہی ہیں جو آج اونٹوں کو پکارنے ، بلانے کے لیے جو مخصوص آوازیں رائج ہیں تو ہی ہیں جو آج سے دو یا ڈھائی ہزار سال پہلے جب مضر ابن الیاس علیہ السّلام کا وجود تھا جناب مضر علیہ ابن الیاس علیہ السّلام ایسی ہی آواز سے اونٹوں کو متوجہ کیا کرتے تھے۔ جناب مضر علیہ السّلام ابن الیاس علیہ السّلام اپنے مخصوص لحن میں جناب ابراہیم علیہ السّلام کے صحیفوں کی تلاوت بھی کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کے ذہن میں فراموش شدہ پیغام الٰہی تازہ ہوتا رہے جناب مضر علیہ السّلام کے ذریعے چوتھی بار کعبہ تعمیر ہوا اور دنیا کے سامنے پھر نئی شکل میں آیا۔ دیکھئے ! جناب اسماعیل علیہ السّلام کا وہ وصی کوشش یہ کر رہا ہے کہ کسی طرح سے دین ابراہیمی، شریعت ابراہیمی اپنے اصلی خدوخال اور لوازمات کے ساتھ باقی رہے، لیکن دوسری طرف انحرافی قوتیں بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں دوسری قوتیں بھی تو کام کرتی ہیں اور دوسری قوتیں جب مکرو فریب کا جال بچھا کر کام کرتی ہیں تو لوگوں کو ان کے کام میں کشش بھی نظر آتی ہے ، سہولت بھی نظر آتی ہے اور جنت تک پہنچنے کا آسان راستہ بھی نظر آتا ہے تو ظاہر ہے فطرت انسانی کہاں جائے گی؟ کم خرچ زیادہ منافع ، کم زحمت زیادہ فائدہ.
Thursday, 22 September 2011
Islam
Detail to answer many aqlam numerous papers and inks require enormous.However, the short answer is that the commandments of God and Mohammad - Messenger of Allah and to consider carefully the perfect chance to follow them around.And to convey them to others, to hate evil things. Stay away from them and warn others to avoid them is Islam.Quran and Hadith to know all the others need to hear or read the Quran and Hadith on the cross for everyone is difficult to obtain.Birth to her concerts, religious meetings and other Sufis aza and participating in meetings,To achieve this intention in mind that just arrived to attend a formal nnsstnd, brkastnd gftnd and will not gain anything but.
Subscribe to:
Posts (Atom)